اداس آنکھوں کی سالگرہ
ایک نظم کہنی ہے
دو اداس آنکھوں پر
جیسے گل کھلانا ہو
زرد زرد شاخوں پر
میرے کاسۂ فن میں ٹوٹے پھوٹے مصرعے ہیں
اور دسترس میں دوست کچھ خیال دھندھلے ہے
اور ان خیالوں میں ایک التجا بھی ہے
التجا بھی اتنی بس
ہونٹوں پے لگی چپ کو آپ تج دیا کیجے
ایک دو مہینے میں کھل کے ہنس لیا کیجے
اور یہ بھی کہنا ہے
جس جگہ قدم رکھیں وہ جہاں مبارک ہو
اک حسین پنچھی کو آسماں مبارک ہو
ساری خوشیاں مل جائیں جن پے آپ کا حق ہو
دو اداس آنکھوں کو جنم دن مبارک ہو