خدا گر میرے ہاتھوں میں دلاسے کی چلم بھرتا

خدا گر میرے ہاتھوں میں دلاسے کی چلم بھرتا
میں اہل ہجر کے ٹھنڈے پڑے سینوں میں دم بھرتا


اگر مجھ کو کسی کے حسن کا موسم نہ راس آتا
میں دل کے سارے خانوں میں تری فرقت کے غم بھرتا


مصور میں حسیں لگتا ترے سب شاہکاروں سے
تو مجھ میں رنگ تو بھرتا بھلے اوروں سے کم بھرتا


بہت تھک کر سوال وصل اس سے کر دیا میں نے
میں کب تک دیکھا دیکھی سے محبت کا شکم بھرتا