ٹوٹا جو آسماں سے وہ تارا نہیں ہوں میں
ٹوٹا جو آسماں سے وہ تارا نہیں ہوں میں
جگنو ہوں دشت غم کا اندھیرا نہیں ہوں میں
شاید کہ بیٹھے بیٹھے میں پتھر میں ڈھل گئی
کیا دیکھتے ہیں لوگ تماشا نہیں ہوں میں
پرچھائیں کی طرح سے وہ رہتا ہے آس پاس
تنہائیو یوں کہنے کو تنہا نہیں ہوں میں
برباد کر کے مجھ کو ستم گر ملے گا کیا
انساں ہوں کوئی سنگ کا ٹکڑا نہیں ہوں میں
اے زندگی سے کھیلنے والو یہ جان لو
کھیلو نہ مجھ سے کوئی کھلونا نہیں ہوں میں
یوں جان و روح کرب مسلسل کے ہیں شکار
زندہ ہوں دیکھنے کو یہ زندہ نہیں ہوں میں
اٹھے گی کب کرم کی گھٹا مجھ کو ڈھانپنے
یا رب بتا دے کیا ترا بندہ نہیں ہوں میں