کرنیں جاگیں تو سبزے پہ جھلمل آنسو بول اٹھے
کرنیں جاگیں تو سبزے پہ جھلمل آنسو بول اٹھے
رات کو تنہائی میں شبنم چپکے چپکے روئی ہے
اک اک کر کے ٹوٹ گئے سب خواب نئی صبحوں والے
روتے روتے چشم تمنا پل دو پل کو سوئی ہے
ارمانوں کی نقرئی ساحل ویرانے سے لگتے ہیں
موج تلاطم میں یہ کس نے دل کی نیا ڈبوئی ہے
چپکے سے جب آ جاتے ہیں یادوں کے غم خوار بہت
آنسو چھلکے آتے ہیں تب کیسی یہ دل جوئی ہے
زخم تمنا سلگا لو اور ساتھ مرے دو گام چلو
دیکھ تو لیں سائے میں کھڑا اس موڑ پہ جیسے کوئی ہے
دل کے آنگن میں حسنیٰؔ جی زخم مہکتے ہیں اب کے
اشکوں کی برسات میں ہم نے فصل انوکھی بوئی ہے