سفر پہ نکلے تو تنہائیاں بھی ساتھ چلیں

سفر پہ نکلے تو تنہائیاں بھی ساتھ چلیں
تمہاری یاد کی پرچھائیاں بھی ساتھ چلیں


قدم قدم پہ بڑھا فاصلوں کا سناٹا
قدم قدم پہ سبھی دوریاں بھی ساتھ چلیں


گلاب چہرہ بہت پیچھے چھوڑ آئے مگر
تمہارے گاؤں کی رنگینیاں بھی ساتھ چلیں


وہ شعر شعر فضا وہ غزل غزل شامیں
حسین لمحوں کی سرمستیاں بھی ساتھ چلیں


رفاقتوں سے مہکتے طلسمی شام و سحر
محبتوں کی یہ پروائیاں بھی ساتھ چلیں


وہ خوشبو خواب دھواں یادوں کے حسیں مہتاب
تمہاری بزم کی رعنائیاں بھی ساتھ چلیں


چھلکتا جائے ہے حسنیٰؔ خمار آنکھوں سے
نظر نظر کی یہ بے خوابیاں بھی ساتھ چلیں