شام کے ساتھ جلا ایک دیا آہستہ

شام کے ساتھ جلا ایک دیا آہستہ
بجھ نہ جائے کہیں اے باد صبا آہستہ


یاد ایام کی تلخی بھی ملی ہے اس میں
جام ہونٹوں سے لگاؤ تو ذرا آہستہ


زخم ہی زخم ہے سر تا بہ قدم جسم مرا
پھوٹ جاؤں نہ کہیں دست ہوا آہستہ


بعد مدت کے ابھی آنکھ لگی ہے غم کی
کوئی نوحہ کوئی نغمہ کہ صدا آہستہ


ٹوٹ جائیں نہ کہیں زخم جگر کے ٹانکے
اے مسیحا ذرا تکمیل وفا آہستہ


مصلحت کیش خرابے میں شعور ہستی
جرم آہستہ ابھی حرف جفا آہستہ


خواب کی وادیٔ گلنار سے جاگی حسنیٰؔ
کوئی دیتا ہے مجھے جیسے صدا آہستہ