تو خود کو دیکھ لے کتنا دراز قامت ہے
تو خود کو دیکھ لے کتنا دراز قامت ہے
ترا فلک تو مرے چاند کی بدولت ہے
کسی بھی حال میں ہم خرچ کر نہیں سکتے
ہمارا درد تری دی ہوئی امانت ہے
مرا وجود ابھی برف کی مثال نہیں
بچی ہوئی ابھی اس راکھ میں تمازت ہے
جواب اینٹ کا دینا پڑے گا پتھر سے
یہی ہے رسم یہاں کی یہی روایت ہے
عجیب چار طرف ہے فضا میں خاموشی
یہ کیا مقام ہے کس قہر کی علامت ہے
نہیں چراغ تو جگنو کا قافلہ بھیجے
بہت سیاہ ہے رستہ بہت ضرورت ہے
نثارؔ تیز قدم ہے بہت یہ دنیا تو
کہ اب پڑاؤ بھی کرنا تجھے قیامت ہے