بجھتی آنکھوں سے مری خواب کہاں جاتا ہے

بجھتی آنکھوں سے مری خواب کہاں جاتا ہے
اب مجھے لے کے یہ سیلاب کہاں جاتا ہے


روح تو کب سے پریشاں ہے نمو کی خاطر
مشت بھر خطۂ شاداب کہاں جاتا ہے


اپنی ہستی میں تو طوفان کھنچے آتے ہیں
ہے جو پاؤں میں وہ گرداب کہاں جاتا ہے


اس کی تقدیر میں لکھا ہے نمی میں رہنا
چھوڑ کر آب کو سرخاب کہاں جاتا ہے


اپنی تہذیب کا ہم پاس بہت رکھتے ہیں
غصے میں لہجۂ آداب کہاں جاتا ہے


جاگنا میری نگاہوں کا مقدر ہے نثارؔ
آنکھ سے جلوۂ مہتاب کہاں جاتا ہے