ہوا کیا حشر برپاتی نہیں ہے

ہوا کیا حشر برپاتی نہیں ہے
مری سانسوں کو مہکاتی نہیں ہے


یہاں جذبوں کے سوتے پھوٹتے ہیں
ندی آنکھوں کی برساتی نہیں ہے


کوئی بھی صبح جو ہمدرد نکلے
کوئی بھی شام جو گھاتی نہیں ہے


مسلسل گھومنے محور پہ اپنے
یہ دنیا پھر بھی چکراتی نہیں ہے


مکیں سارے ہیں سب کا آشیانہ
کسی کا ملک یہ ذاتی نہیں ہے


کٹا اک پیڑ آنگن کا ہمارے
نحوست گھر سے اب جاتی نہیں ہے


بڑا احسان گردش نے کیا یہ
ہمارے ساتھ اکتاتی نہیں ہے