تمام جسم اگر لا ابال ہے تو رہے
تمام جسم اگر لا ابال ہے تو رہے
وہی جو دشت میں تنہا غزال ہے تو رہے
فقیر بھول چکا ہے نصاب دنیا کا
ترے نصیب میں مال و منال ہے تو رہے
عزیز رکھتی ہے مجھ کو وطن کی خاک بہت
ترے خلوص میں رنج و ملال ہے تو رہے
کیا ہے جنگ کو رخصت مگر دعا دے کر
عدو کے پاس اگر اس کی ڈھال ہے تو رہے
تلاش کرنے کو نکلے بہت سے لوگ تجھے
نشان قدموں کا ملنا محال ہے تو رہے
حصار باندھ رہی ہے نثارؔ سرشاری
خلاف آج جنوب و شمال ہے تو رہے