تجھ پہ قرباں ہو جو سو بار کہاں سے لاؤں

تجھ پہ قرباں ہو جو سو بار کہاں سے لاؤں
اب وہ دل اے نگہ یار کہاں سے لاؤں


سر ہے اپنوں ہی کے الطاف و عنایات سے خم
طبع منت کش اغیار کہاں سے لاؤں


سنگ و آہن کو بھی پگھلا دے حرارت جن کی
وہ سلگتے ہوئے افکار کہاں سے لاؤں


ذہن افسردہ دل افگار پریشاں خاطر
میں گل افشانیٔ گفتار کہاں سے لاؤں


جب ہے مجھ سے مرا سایہ بھی گریزاں اطہرؔ
پھر کوئی ہمدم و غم خوار کہاں سے لاؤں