اشک باقی کوئی اب دیدۂ گریاں میں نہیں
اشک باقی کوئی اب دیدۂ گریاں میں نہیں
پھر بھی تو کوئی کمی سوزش پنہاں میں نہیں
آرزو مجھ کو کسی شاہد گل کی کیا خوب
میری قسمت کے تو کانٹے بھی گلستاں میں نہیں
فصل گل آئی تو کیا حیف پئے نذر بہار
اب تو اک تار بھی باقی مرے داماں میں نہیں
ذوق نظارہ پہ ہے عظمت جلوہ موقوف
دل کشی ورنہ کوئی جلوۂ جاناں میں نہیں
صاحب علم و فن و فکر و نظر ہے اطہرؔ
ربط باہم مگر اس دور کے انساں میں نہیں