تمہاری شکل کسی شکل سے ملاتے ہوئے

تمہاری شکل کسی شکل سے ملاتے ہوئے
میں کھو گیا ہوں نیا راستہ بناتے ہوئے


مرا نصیب کہ پت جھڑ میں کھل گئے ہیں پھول
وہ ہاتھ آ لگا ہے ہاتھ آزماتے ہوئے


میں جھوٹ بول دوں لیکن برا تو لگتا ہے
تمہارے شعر کسی اور کو سناتے ہوئے


اتر کے شاخ سے اوروں میں ہو گیا آباد
کہ عمر کاٹ دی جس پھول کو کھلاتے ہوئے


اکیلا میں نہیں مجرم شب وصال کا دوست
تھی تیری پھونک بھی شامل دیا بجھاتے ہوئے


ترے جمال کی رنگت نظر میں رکھتا ہوں
میں کینواس پہ تصویر گل بناتے ہوئے


اسی گمان میں شب بھر شراب پیتے رہے
کہ اب وہ ہاتھ کو روکے گا حق جتاتے ہوئے