تمہاری بزم میں جو لوگ جا کے بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں جو لوگ جا کے بیٹھے ہیں
نصیب داؤ پہ اپنا لگا کے بیٹھے ہیں
یہ دو جہان کے افراد وقت کے ہیں غلام
بڑے بڑوں کو بھی ہم آزما کے بیٹھے ہیں
مدد کے واسطے آئے گا کون دیکھنا ہے
ہم اپنا درد سبھی کو سنا کے بیٹھے ہیں
ہے مطلبی یہ زمانہ کسی کا کوئی نہیں
دیا امید کا پھر بھی جلا کے بیٹھے ہیں
نہیں ہے کوئی بھی دیوانگی کا ذمے دار
خودی کا حال یہ خود ہی بنا کے بیٹھے ہیں
انہیں دکھائی نہیں دیتا مستحق کوئی
جو کائنات کی دولت دبا کے بیٹھے ہیں
جو دیکھتا ہے وہ کہتا ہے مطمئن ہم کو
یہ اور بات کے سب کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں
عجیب حال ہے دنیا کا اے شرر نقویؔ
جنہیں تھا جھکنا وہی سر اٹھا کے بیٹھے ہیں