عجیب راہ گزر ہے بہت اکیلا ہوں
عجیب راہ گزر ہے بہت اکیلا ہوں
مجھے بھٹکنے کا ڈر ہے بہت اکیلا ہوں
کوئی نظر نہیں آتا ہے ہم مزاج مجھے
یہی تو درد جگر ہے بہت اکیلا ہوں
وہ ایک شخص جو بچھڑا ہے اک زمانے سے
اسے بھی اس کی خبر ہے بہت اکیلا ہوں
یہ اور بات کھڑا ہوں ہزاروں لوگوں میں
یقین دل کو مگر ہے بہت اکیلا ہوں
وہ دیکھ پھر سے گلستاں کا آ گیا موسم
مری بہار کدھر ہے بہت اکیلا ہوں
میں پوچھتا ہوں یہ تنہائی سے شرر نقویؔ
یہ عیب ہے کہ ہنر ہے بہت اکیلا ہوں