تمہارے نام لکھتا ہوں

سنہری دھوپ کا منظر
گئے موسم کی شادابی
شفق کی ریشمی گرہیں
چاند کے پہلو میں لپٹی سبز شاخیں
کسی ٹوٹے ہوئے تارے کی دھندلی سی لکیریں
نقش جن کے ریت پر بہتے رہے برسوں
سفر کی دائمی خوشبو
میں جس کی آرزو لے کر تمہارے پاس آیا تھا
کتاب دل کی وہ دھڑکن
تمہارے نام لکھتا ہوں
پروں پر تتلیوں کے تیرتی سرگم
جو لفظوں میں کبھی ڈھلنے نہ پائی
وہ مدھم ساز کی جنبش
اجالے صبح کے دستک ہواؤں کی
میں اپنی سوچ کی ٹیڑھی لکیریں
جو کبھی آئیں صدا بن کر
خلا بن کر جو لوٹی ہیں
کسی بے نام صحرا میں
تمہارے نام لکھتا ہوں
گزرتی ساعتوں کی تلخیاں رعنائیاں
آوارگی اپنی
طلسم آگہی کے خواب پیکر
پھول تتلی رنگ بارش قہقہے
خزانے لفظ و معنی کے
سلیقے گفتگو کے
نرم لہجے کی رواں لہریں
محبت کی پرانی داستاں
تم نے کہی میں نے سنی
میں نے کہی تم نے سنی
تمہارے نام لکھتا ہوں
مجھے اب سرخ رو کر دو
مرے سب خواب چوری ہو گئے ہیں
خواب کی منزل نیا اک خواب ہے
مرے دامن میں خوابیدہ
نہ جانے کتنے خاکے کتنے نقشے
آخری سانسوں پہ ہیں
تصویر ان خوابوں کی اب میں سونپ کر تجھ کو
نیا اک باب لکھتا ہوں
تمہارے نام لکھتا ہوں