سوچ کی پرچھائیاں ہیں اور میں
سوچ کی پرچھائیاں ہیں اور میں
تجربوں کی سیپیاں ہیں اور میں
شہر ہے خاموش جیسے ہو کھنڈر
دھوپ میں جلتے مکاں ہیں اور میں
تیز آندھی چیرتی جائے بدن
دھند میں لپٹے جہاں ہیں اور میں
خون میں لتھڑے سروں کے درمیاں
دار کی خاموشیاں ہیں اور میں
پھول سی چڑیا زمیں پر کیا گری
ذہن میں رقصاں گماں ہیں اور میں
گرد ہوتی منزلیں ہیں سامنے
ریت پر مٹتے نشاں ہیں اور میں
زرد موسم اوڑھ کر سویا بدن
روح کی پہنائیاں ہیں اور میں