تمہارے آستاں تک آ گئے ہیں

تمہارے آستاں تک آ گئے ہیں
زمیں سے آسماں تک آ گئے ہیں


جنہوں نے پھونک ڈالا ہے چمن کو
وہ شعلے آشیاں تک آ گئے ہیں


خدایا خیر میرے گلستاں کی
کہ اب نغمے فغاں تک آ گئے ہیں


نہ پوچھو مرحلوں سے کیسے گزرے
یہ دیکھو ہم کہاں تک آ گئے ہیں


جنہیں خود ڈھونڈھتی تھی ان کی منزل
وہ گرد کارواں تک آ گئے ہیں


نہ ہونا چاہیے تھا جن کا اظہار
وہ شکوے اب زباں تک آ گئے ہیں


مری بربادیوں کے تذکرے بھی
تمہاری داستاں تک آ گئے ہیں


خدایا خیر ہو اب ان کے جلوے
نظر کے امتحاں تک آ گئے ہیں


جفا کے سلسلے بھی ہوتے ہوتے
مری تاب و تواں تک آ گئے ہیں


معاذ اللہ دور بے یقینی
یقیں والے گماں تک آ گئے ہیں


سلام اے گردش دوراں کہ ہم تو
در پیر مغاں تک آ گئے ہیں