جادۂ شوق میں کام آئے سکندر کتنے
جادۂ شوق میں کام آئے سکندر کتنے
اس سمندر میں ہوئے غرق شناور کتنے
ان کو دیکھا تو نہ تھا نام سنا جب ان کا
ذہن میں بنتے رہے حسن کے پیکر کتنے
مور بے مایہ مگر اپنی ادا پر قائم
ہم سے ٹکراتے رہے وقت کے داور کتنے
کتنے ذرات کو مہتاب کی ضو بخشی ہے
آپ کے ساتھ ہیں وابستہ مقدر کتنے
بات مے خانہ کے آداب سے آگے نہ گئی
روبرو میرے چھلکتے رہے ساغر کتنے
شہر در شہر اسی بات کا چرچا ہے بہت
پھول سی بات پہ مارے گئے پتھر کتنے
کہیں اپنوں کی عنایت کہیں غیروں کا کرم
مسکراتے ہیں مجھے دیکھ کے خنجر کتنے
یہ بھی آئینۂ ایام میں دیکھو گے بہت
کھا گئی موج ستم جانے ستم گر کتنے
ہر قدم لٹتے رہے اتنا بتا دے کوئی
قافلے والوں کی قسمت میں ہیں رہبر کتنے
ہائے وہ پرسش حالات کا انداز قمرؔ
میری آنکھوں میں سمٹ آئے ہیں منظر کتنے