جب دل میں کبھی وہ مرے مہمان رہے ہیں

جب دل میں کبھی وہ مرے مہمان رہے ہیں
ویرانے میں بھی جشن کے سامان رہے ہیں


اکثر یہ ہوا مصلحت عشق کی خاطر
ہر بات سمجھتے ہوئے انجان رہے ہیں


انجام پہ نظریں ہیں مگر کچھ نہیں کہتے
ہم وقت کی رفتار کو پہچان رہے ہیں


خود میں نے بھی چاہا تھا جنہیں پورے نہ ہو پائیں
ایسے بھی مرے دل میں کچھ ارمان رہے ہیں


ہم ان کے تغافل کو سمجھتے ہیں اک انداز
یہ بات ہے جس پر وہ برا مان رہے ہیں


تعمیر نشیمن کے ہیں انداز بہت خوب
انجام جو ہونا ہے وہ ہم جان رہے ہیں


جن سخت مراحل سے گزرنا نہیں ممکن
ہم پر وہ مراحل بہت آسان رہے ہیں


اس درجہ نزاکت تو طبیعت میں نہیں تھی
ہر بات پر اب آپ برا مان رہے ہیں


کیا میری خموشی نے قمرؔ ان سے کہا ہے
تا دیر وہ محفل میں پشیمان رہے ہیں