مری طلب کا یہ حاصل یہ مدعا ٹھہرا

مری طلب کا یہ حاصل یہ مدعا ٹھہرا
ترے کرم کا سہارا ہی آسرا ٹھہرا


کوئی ہوائے زمانہ اسے مٹا نہ سکی
تمہاری یاد کا ہر نقش دیر پا ٹھہرا


متاع کون و مکاں سے عزیز تر مجھ کو
جو التفات مرے درد کی دوا ٹھہرا


کسی کے نقد و نظر کا تو کچھ نہیں لیکن
تری نگاہ میں کیا جانیے میں کیا ٹھہرا


اب اس کے بعد جو ہونا ہے سوچ لو خود ہی
ملا ہوا ہے جو طوفاں سے ناخدا ٹھہرا


تمہاری یاد سے بچ کر گزر گیا جو کبھی
وہ ایک لمحہ بھی صدیوں کا فاصلہ ٹھہرا


شعور راہ روی میں نے جس کو بخشا تھا
خوشا نصیب وہی میرا رہنما ٹھہرا


حقیر ذرہ ذرا وقت جس کے ساتھ ہوا
چمک اٹھا تو وہی وقت کا خدا ٹھہرا


ترے ہی نام کی نسبت مرا تعارف ہے
میں کچھ ہی کیوں نہ رہا تیرا نقش پا ٹھہرا


امید و بیم کا وہ معرکہ بھی کیا تھا قمرؔ
بس اک نظر مری قسمت کا فیصلہ ٹھہرا