ترے غم کے سوا ہر ایک غم نا معتبر جانا
ترے غم کے سوا ہر ایک غم نا معتبر جانا
ہمیں آتا ہے تیرے نام پر حد سے گزر جانا
بہ ائیں حالات منزل تک پہنچنا سخت مشکل تھا
کہ جس نے کارواں لوٹا اسی کو راہبر جانا
تلاش صبح نو میں سعئ لا حاصل کو کیا کہیے
وہ نکلی اک شب تیرہ جسے نور سحر جانا
وہی بےگانہ ہوش و خرد ثابت ہوئے ہمدم
وہ جن کو دیدہ ور سمجھا جنہیں اہل نظر جانا
دیار عشق میں وہ بھی مقام آ ہی گیا آخر
جہاں سر جھک گیا اپنا تمہارا سنگ در جانا
الم کیا ہے مآل زیست کا حاصل سمجھ لینا
خوشی کیا ہے یہاں حالات کا قدرے سنور جانا
انہوں نے آبرو رکھ لی چمن میں آشیانے کی
قمرؔ اہل گلستاں نے جنہیں بے بال و پر جانا