تم نہ آؤ گے تو کیا ہو جائے گا

تم نہ آؤ گے تو کیا ہو جائے گا
درد خود بڑھ کر دوا ہو جائے گا


جو خودی سے آشنا ہو جائے گا
محرم راز بقا ہو جائے گا


کیا پلاؤ گے کسی سقراط کو
زہر تو آب بقا ہو جائے گا


ہم کریں گے جب نوائے حق بلند
اک زمانہ ہم نوا ہو جائے گا


پارسائی دیکھتی رہ جائے گی
باب رحمت ہم پہ وا ہو جائے گا


شوق منزل شرط ہے اے راہرو
ذرہ ذرہ رہنما ہو جائے گا


بارگاہ حسن پر کر دو نثار
زندگی کا حق ادا ہو جائے گا


ناز کیا ہے زندگی کے ساز پر
ایک دن یہ بے صدا ہو جائے گا


ہم نے پوجا تھا کسی کو پیار سے
کیا خبر تھی وہ خدا ہو جائے گا


عف قلب و نظر پیدا تو کر
حسن مجبور وفا ہو جائے گا


کام لے صابرؔ تو صبر و شکر سے
اس کی جو ہوگی رضا ہو جائے گا