دنیا میں نام کو بھی محبت نہیں رہی
دنیا میں نام کو بھی محبت نہیں رہی
انسان کی وہ پہلی سی فطرت نہیں رہی
بے حرمتیٔ حضرت آدم کو دیکھ کر
اپنے تو دل میں حسرت جنت نہیں رہی
حاصل اسے مقام فرشتوں کا تھا کبھی
صد حیف آدمی کی وہ عظمت نہیں رہی
آتش بجاں ہے برق تپاں کس کے واسطے
ہم آشیاں بنائیں یہ حسرت نہیں رہی
اپنوں کا لطف جور مسلسل سے کم نہیں
غیروں سے ہم کو کوئی شکایت نہیں رہی
صابرؔ کسی کی یاد میں خود کو بھلا سکیں
کار جہاں سے اتنی بھی فرصت نہیں رہی