آشیانے کی جب بھی یاد آئی
آشیانے کی جب بھی یاد آئی
ایک بجلی سی دل میں لہرائی
یوں بھی دیکھا گیا ہے محفل میں
وہ تماشا تھے ہم تماشائی
تیرے آنچل کا جس پہ سایہ ہو
اس گدا پر نثار دارائی
ہم نے دامن ہی جا لیا ان کا
لوگ کرتے رہے جبیں سائی
ماہ و انجم میں لالہ و گل میں
ہم کو تیری جھلک نظر آئی
دوست آئے تھے مجھ کو سمجھا نے
حال دیکھا تو آنکھ بھر آئی
چھا گئیں مستیاں فضاؤں میں
تیرے دامن کی جب ہوا آئی
جو محبت میں مٹ گیا صابرؔ
اس نے مر کر بھی زندگی پائی