ترے جلووں کا وہ عالم نہیں ہے
ترے جلووں کا وہ عالم نہیں ہے
شعور دید ورنہ کم نہیں ہے
نظام زندگی ہے منتشر سا
مزاج یار تو برہم نہیں ہے
کبھی لذت کش راحت نہ ہوں گے
میسر جن کو تیرا غم نہیں ہے
دیا ہے غم زمانے بھر کا مجھ کو
عنایت یہ بھی تیری کم نہیں ہے
ہمیں امید ہو کیوں کر کرم کی
ستم بھی جب ترا پیہم نہیں ہے
نوازش ہو گئی جس پر جنوں کی
اسے دنیا میں کوئی غم نہیں ہے
میسر ہے تری آنکھوں کی مستی
مجھے سودائے جام جم نہیں ہے
سلیقہ ہو اگر جینے کا صابرؔ
حیات چند روزہ کم نہیں ہے