تم کون ہو ؟

ہوائیں سیدھی ہمارے چہرے کو مَس ہوتی ہوئی ہمارے پیچھے کی جانب روانہ تھیں۔ ہمارے بال چند لمحوں کو ہوا کے ہمدم و ساتھی بنتے اور پھر ہوا کے گذر جانے پر ان کی زندگی اتھل پتھل ہو جاتی۔ ہم اپنے کپڑوں کے اڑانے سے لے کر ہوا کی ہر ہر حرکت پر نظر کئے ہوئے تھے۔
کبھی ہم ہوا کے مخالف رخ کھڑے ہو جاتے تونہ پوچھو ایسی حالت ہوتی ، ہماری نہیں ہوا کی ، وہی تو تھی جو ہمارا رخ موڑنے پرسخت برہم ہوتی اور ہمارے تمام بالوں کا یوں حشر نشر کئے دیتی کہ اللہ ہی جانتا تھایا ہم، جو اس کے عتاب میں آ جاتے تھے۔
ہمیں کیا پڑی تھی کہ بادِ مخالف کو اپنے ہی پیچھے لگا لیتے تھے۔ بس یہی ہماری محبت کے چونچلے تھے۔ ہمیں اپنی محبت کا اتنا یقین تھا کہ ہم ہر طوفان سے بے خبر چلے جارھے تھے۔
وہ دن جب اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ۔۔۔کیا کہوں کہ اس یاد سے ہی سانس گھٹنے لگتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ کوئی برا واقعہ تھا بلکہ اسلئے کہ اس پیار کی یاد جو اب کہیں گم ہو چکا ہے اس کو سوچتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔سانسیں اٹک جاتی ہیں، د ماغ مین دھواں سا بھر جاتا ہے ، شوں شوں کی آوازیں اور اور
میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو میں اپنے تکیہ پر اوندھا سر رکھے نجانے کب سے پڑی تھی۔ کئی دن ہو گئے یا کچھ برس ہو گئے ہوں گے ، میں نے تو اپنے ذھن میں یاد کے ہر خانے کے آگے ایک دیوار تعمیر کر دی تھی،سب کچھ مخفی ہو گیا تھا ، نہ مجھے کچھ یاد آیا ان سالوں میں ، نہ ہی میں سوئی۔ عجیب کیفیت ہوتی ہے نا جب یہ بھی سمجھ نہ آئےکہ آخر اداسی کی وجہ کیا ہے لیکن غم ایسا کہ سینہ پھٹا جا رھا ہو، درد ایسا کہ ٹیسیں تو اٹھیں لیکن منبع نہ مل سکے ، دل بند ہو رھا ہو توکوئی چارہ نہ ہو اور دماغ میں سائیں سائیں کی آوازیں اور اورمیں اور وہ دنیا سے بے خبر بلکہ دنیا پر ہنستے اور اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کبھی دریاؤں کے کنارے پتھروں پہ بیھٹتے تو سورج آ کر ساتھ ہی بیٹھ جاتا۔ بڑا نٹ کھٹ تھا ، ہمارے سایے ایسے بناتا کہ کبھی دو پرندے جو دریا پر تیرتے ہوئے اٹھکیلیاں کررھے ہوں تو کبھی وہ بچے جو ساحل پر کھیلتے ہوئے آپس میں گھتم گھتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکڑنے کو بھاگتا تو میں پانی کی جانب جانے لگتی۔ وہ مجھے اپنی قسم دیتا دیکھو پانی کے قریب مت جانا۔ یہ بہت دھوکے بازہوتا ہے۔ ھاں نامیرا نام جو اس نے لکھا تھا پانی پہ بڑا دھوکے باز نکلا، کیا ؟ وہ ؟ ھاں پانی ! میرا نام ہی مٹا دیا۔
میرا جسم اب بالکل نہیں ہلتا ، بازو ہیں یہ تو مجھے یاد ہے، پاؤں بھی ہیں ، وہ بھی یاد ہے یا شاید یاد آ گیا ہے پر میں دیکھ نہیں سکتی، دکھائی دیتا ہے تو صرف ایک تکیہ جسکا غلاف کبھی سفید ہوتا ہے تو کبھی چمپئی۔۔۔آنکھیں کام کر رھی ہیں ، یہ جو پانی کی گرم بوندیں رخسار سے تکیے میں دھنسی جا رھی ہیں ، یہی میری زندگی کی علامت ہیں۔آنکھیں نم کیوں ہو گئیں ؟ کرب ، اذیت ، کس بات کا ؟ کیوں یاد نہین آ رھا ؟ نہین نہین مجھے نہیں سوچنا۔ مجھے کھڑکیاں بند رکھنے کا حکم ہے ، ذھن کی بھی اور اورشائیں شائیں شائیں۔

ھاں نا چمپئی رنگ مجھے پسند تھا، اِسے بھی۔۔۔سمندروں کے کنارے شام کا رنگ ، ہمارےخوابوں کا رنگ ، ساتھ گزارے بے شمار وقتوں کا رنگ۔ جب وہ میرے بالوں میں چمپہ کاپھول لگاتا تو مین مسحور ہو کر اسے چوم لیتی۔ پھول کو کیسے چوم سکتی ہوں اس کے ہاتھوں کوبھئی۔ عین اسی لمحے پھول میرے ہی عارض کے رنگ چرا لیتا تھا۔ چور۔۔۔اور وہ میرےعارض بھنورا، نہیں چکور ھاں ھاں تم پروانے ہو, میں کہتی ۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا لیکن ستانے کو کہتا کہ میں تو بھنورا نہین بھنور ہوں تمہین لے ڈوبوں گا اپنے چکر میں ،چکور نہیں اور پرواہ نہ(پروانہ ) کرنےوالا ہوں۔ ہم دونوں خوب ہنستے ، ایسا بھلا ممکن تھا ، کبھی نہیں وہ تھا ہی ایسامن موھنا ، شریر۔۔۔۔ہنستے ہنستے پھندا لگ گیا۔۔۔۔
گھٹن بڑھتی جا رھی ہے ، وہ دیکھو لوگ آ گئے ہیں۔ دائرہ تنگ ہو رھا ہے۔ ان کے ہاتھ ہماری گردنوں پر ہیں۔ ہمارے ہنسنے کی سزا ہے، نہیں نہیں ، بے خبر ہونے کی، یاشاید تم۔۔۔کیا تم بھی۔ دنیا ہو ،پانی ہو، سایا ہو، ہوا ہو یا چکرمیں اپنا سر پکڑنا چاھتی ہوں کہ وہ پھیلتاجا رھا ہے ، لیکن بازو قید ہیں، میں بھاگنا چاہتی ہوں، ٹانگیں منجمد۔ کیا میں صرف اب تکیہ ہی دیکھ سکتی ہوں۔ سیدھا تو کر دو مجھے۔ نہیں، اچھا ، دیکھو مر جاؤں گی؟۔۔۔
تم میر ی تصویر کھینچو گے ؟ کتنے پاگل تھے نا تم ؟
اجڑے پیلے یرقان زدہ پتے بھی میرے ساتھ تصویر کھنچوانا چاھتے تھے ، وہ میری ہریالی چرانا چاھتے تھے ، سبزہ و گھاس مجھ سے میری شادابی، اور باغ مجھ سے بہار لینا چاھتے تھے۔ میں نے سب کو انکا حصہ دے دیا۔ میں خالی رہ گئی ، یہاں خالی خالی نگاھوں، سے کئی برسوں کو گود لئے پڑی ہوں یا شاید صدیوں کوشائیں شائیں۔۔۔۔
‘‘سسٹر پلیز انہیں ری ہیبیلیٹیشن وارڈ مین منتقل کر دیں۔ انہیں رفتہ رفتہ ہوش آرھا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح واپس کوما۔۔۔’‘ ڈاکٹر ذریمان کی آواز میرے کانوں میں اور شائیں شائیں شائیں۔۔۔