ہنوز عشق میں شعلہ سا جل بجھا کیا ہے

ہنوز عشق میں شعلہ سا جل بجھا کیا ہے
نہ جانے آج بھی وحشت میں سر پھرا کیا ہے


فقیر آئے تھے محفل میں تیری سننے کو
وہ بات تجھ میں سنانے کا حوصلہ کیا ہے


وفا ہے مجھ سے خفا اور تو خفا مجھ سے
ذرا یہ دیکھ جفا نے تیری کیا کیا ہے


یہ میرا صبر بھی جو کام میرے آ نہ سکا
تو اے خدا یہ مرا تجھ پہ آسرا کیا ہے


صدائے شوق کو مہمیز کر رہی ہے ہوا
بساط اپنی وگرنہ یہاں سوا کیا ہے


یہ خاک دیس ہے یا ہے یہ خاک‌ کرب و بلا
لہو سے کرتے ہیں سیراب ماجرا کیا ہے


سمجھنا چاہو تو زہراؔ سے زیست کو سمجھو
نفی ثبات من و تو معاملہ کیا ہے