یوں گردش دوراں میں کچھ احباب ملے ہیں

یوں گردش دوراں میں کچھ احباب ملے ہیں
جیسے شب تاریک میں مہتاب ملے ہیں


یادوں کے کئی نقش ہیں بکھرے ہوئے دل میں
ان یادوں کے انبار سے کچھ خواب ملے ہیں


پہنے ہوئے رہتی ہوں تری یادوں کے گہنے
ان گہنوں میں کچھ گوہر نایاب ملے ہیں


اس دل کا تری روح سے رشتہ ہے کوئی تو
مجھ کو تری آنکھوں میں جو گرداب ملے ہیں


روشن ہیں یہاں تیری جہاں دیدہ نگاہیں
یوں ہم بھی تری فکر سے سیراب ملے ہیں


گھبرانا نہیں تو نے کبھی رنج سفر سے
دل تیرے لئے کتنے ہی بیتاب ملے ہیں


ہے میری سکھی عابدہ تیری میرے مولا
جس کے لئے جنت کے کئی باب کھلے ہیں


زہراؔ یہ فقط اس کی دعاؤں کا ثمر ہے
کچھ لوگ جو ہم کو سر محراب ملے ہیں