کہانی

سنو تم لکھ کے دے دو نا
کہانی میں کہاں سچ ہے
کہاں پہ رک کے تم نے غالباً کچھ جھوٹ لکھنا ہے
کہاں ایسا کوئی اک موڑ آنا ہے
جہاں چالان ممکن ہے
کہاں وہ بیش قیمت سا
سنہری چھوٹا سا ڈبہ جو اپنی دھڑکنوں سے اپنے ہونے کی گواہی دے رہا ہے
ٹوٹ جانا ہے
کہاں قاری کو سمجھانا ہے
دکھ کے اس الاؤ میں جھلستی سی کہانی روک دینا ہی ضروری ہے
سفر میں رک کے سب کو الوداع کہنے کا لمحہ لازمی ہے
کہاں تاریخ لکھ کے اس قلم کو جیب میں رکھنا ضروری ہو گیا ہے
سنو تم یہ بتاؤ نا
تمہاری طلسماتی سی کہانی میں کوئی کردار تو ہوگا
جو ذمے دار ہوگا
کہاں پر مرکزی کردار نے دکھ درد سینے میں چھپانا ہے
فلک کو بد گماں کر کے
زمیں کو آسماں ہوتا دکھانا ہے
ندامت اور ملامت ساتھ رکھنی ہے
ہر اک ساعت کے سارے دکھ اٹھانے ہیں
نبھانے ہیں
بتانا ہے
محبت زندگی کا استعارہ ہے
محبت رات کا پہلا ستارہ ہے
یا
دکھ کا آخری کوئی کنارہ ہے