تجھے ہے پیار تو یوں کرکے چل دکھا مجھ کو

تجھے ہے پیار تو یوں کرکے چل دکھا مجھ کو
سبھی کے سامنے اپنے گلے لگا مجھ کو


میں جانتا ہوں کہ تو اک دہکتا شعلہ ہے
تری تپش میں اگر دم ہے تو جلا مجھ کو


ہر اک نظر کو پتا ہے میں ایک پتھر ہوں
ہر ایک دل نے بنا رکھا ہے خدا مجھ کو


تری زباں پہ ہے انکار آج بھی لیکن
کچھ اور کہتی لگی ہے تری ادا مجھ کو


نہ اب رہا ہے کوئی شوق بننے ٹھننے کا
نہ اپنی اور بلاتا ہے آئینہ مجھ کو


کہیں ندی کہیں دریا کہیں سمندر ہوں
یہ نام دیتا ہے پانی کا سلسلہ مجھ کو


انہیں ہے شوق اگر آزمانے کا الفتؔ
غرور اپنی وفا پر بھی ہے بڑا مجھ کو