اپنے ہونے کی جھلک دیتا ہے
اپنے ہونے کی جھلک دیتا ہے
فن کہیں بھی ہو چمک دیتا ہے
پھول اس کو بھی مہک دیتا ہے
ہاتھ جو اس کو جھٹک دیتا ہے
غیر تنکا بھی اچک دیتا ہے
اپنا تو اپنے کی ڈھک دیتا ہے
آپ اندھیروں کا گلہ کرتے ہیں
چاند تارے بھی فلک دیتا ہے
پہلے جی بھر کے جلاتا ہے مجھے
اور پھر باد خنک دیتا ہے
جو شجر چاہتا ہے پھول اور پھل
اپنی شاخوں کو لچک دیتا ہے
اب بھی شرماتا ہے ساجن میرا
اب بھی آنکھوں کو جھپک دیتا ہے
زخم تو پہلے بھی دیتا تھا وہ
آج کل ساتھ نمک دیتا ہے
نیند وہ بھی تو حسیں ہے الفتؔ
جب ذرا باپ تھپک دیتا ہے