تری یادوں سے گر اوبر جائیں

تری یادوں سے گر اوبر جائیں
عین ممکن ہے پھر کہ مر جائیں


یا خدا راستا نہ منزل ہے
کچھ تو بتلا دے ہم کدھر جائیں


توڑ کر بندشیں رواجوں کی
اب چلو حد سے ہم گزر جائیں


رات آوارگی کی سڑکوں پر
ہو گئی صبح اب تو گھر جائیں


عشق والو دو مشورہ مجھ کو
غم کے مارے ہوئے کدھر جائیں


جسم پھر بیچ میں نہ آئے گا
ہم اگر روح میں اتر جائیں


تشنگی ہے مگر سنو جانا
پیاس اتنی نہیں کہ مر جائیں


درد اتنا ہے میری آنکھوں میں
آئنیں ٹوٹ کر بکھر جائیں