عشق دل میں اگر نہیں ہوتا
عشق دل میں اگر نہیں ہوتا
تیری چوکھٹ پہ سر نہیں ہوتا
تیرا ہونا حیات میں میری
ہو بھی سکتا ہے پر نہیں ہوتا
تیری یادوں کے ساتھ چلتا ہوں
یہ سفر کیا سفر نہیں ہوتا
ریت کا گھر بنا تو لیں لیکن
ریت ہوتی ہے گھر نہیں ہوتا
ہم زباں ہے وہ ہم خیال بھی ہے
جانے کیوں ہم سفر نہیں ہوتا
ایک مدت گزار بیٹھے ہیں
ایک لمحہ بسر نہیں ہوتا
ہم تو غافلؔ ہیں دین و دنیا سے
ہم فقیروں کا گھر نہیں ہوتا