مانا کہ زندگی میں کچھ اچھا نہیں کیا
مانا کہ زندگی میں کچھ اچھا نہیں کیا
لیکن ضمیر کا کبھی سودا نہیں کیا
رسوا ہوئے ہیں خود اسے رسوا نہیں کیا
چپ چاپ کھائے زخم تماشہ نہیں کیا
سجدے میں جب جھکایا تو دل سے جھکایا سر
ہم نے وفا کی راہ میں دھوکا نہیں کیا
شاید تراش کر مجھے مورت بنائے وہ
پتھر سے خود کو اس لئے شیشہ نہیں کیا
توڑے ہیں جام تارے گنے بدلی کروٹیں
آ دیکھ تیری یاد میں کیا کیا نہیں کیا
ڈستے ہیں سارے خواب جو بچپن میں دیکھے تھے
غافلؔ جوانی میں جنہیں پورا نہیں کیا