اب دل کو تم سے کوئی بھی شکوہ نہیں رہا

اب دل کو تم سے کوئی بھی شکوہ نہیں رہا
یعنی ہمارے بیچ کا رشتہ نہیں رہا


بچپن گزارتے ہیں مشقت کے ساتھ وہ
جن کے سروں پہ باپ کا سایا نہیں رہا


جب تک نہ ان کی دید ہو کیسے غزل کہوں
میرے خیال میں کوئی مصرع نہیں رہا


صیاد تیرے ظلم کی اب انتہا ہوئی
خالی قفس بچا ہے پرندہ نہیں رہا


آواز دے رہا ہے مجھے بار بار کیوں
اس کو خبر کرو کہ میں زندہ نہیں رہا


خلوت میں میرے ساتھ ہی رہتا ہے تو صنم
تیرے بغیر میں کہیں تنہا نہیں رہا


الفت میں اپنے یار کی غافلؔ ہوں اس قدر
میرا اب اس جہان سے رشتہ نہیں رہا