ہمارے ہاتھ میں بچوں نے تتلیاں رکھ دیں
ہمارے ہاتھ میں بچوں نے تتلیاں رکھ دیں
تو اپنے ہاتھ کی ہم نے بھی برچھیاں رکھ دیں
ہوا تھا ذکر اچانک ہی موت کا مجھ سے
تڑپ کے اس نے میرے لب پہ انگلیاں رکھ دیں
رہا کیا ہے پرندے کو اس طریقے سے
پروں کو کھول کے پیروں میں بیڑیاں رکھ دیں
تم اس غریب کی جھولی میں رزق بھی رکھنا
کہ جس غریب کی گودی میں بیٹیاں رکھ دیں
حدوں کو توڑ گیا یوں غریب بنجارہ
کہ شاہزادی کے ہاتھوں میں چوڑیاں رکھ دیں
جب ان کے راہ کے کانٹے ہٹا نہیں پائے
تو ان کے پاؤں کے نیچے ہتھیلیاں رکھ دیں
میری دعا ہے سلامت رہے قیامت تک
وہ عشق جس نے لبوں پر یہ سسکیاں رکھ دیں