تری تلاش نے رکھا ہے در بدر مجھ کو

تری تلاش نے رکھا ہے در بدر مجھ کو
ترے سوا نہیں آتا کوئی نظر مجھ کو


میں ڈوب جاتا ہوں جب بھی ترے تصور میں
جہاں کی پھر نہیں رہتی ہے کچھ خبر مجھ کو


تو ہم قدم تھا مرا زندگی کی راہوں میں
کٹھن لگا ہی نہیں تھا کبھی سفر مجھ کو


نظر اٹھے ہے جدھر بھی دیار الفت میں
ترا ہی جلوہ نظر آئے ہے ادھر مجھ کو


زماں شناسی تو کچھ حیثیت نہیں رکھتی
کہ اپنے گھر کی نہیں جب کوئی خبر مجھ کو


چمکتی دھوپ میں سب کے لئے ہے سایہ فگن
بشر سے بڑھ کے لگے مہرباں شجر مجھ کو


کہیں بھی ڈھونڈے سے ملتا نہیں سراغ کوئی
لگے ہے بھولی ہوئی داستاں بشر مجھ کو


کہ پتھروں کے مکاں چاہتا نہیں انوارؔ
محبتوں سے بھری ریت کا دے گھر مجھ کو