میرؔ جیسا کوئی سخنور نہ آئے گا
میرؔ جیسا کوئی سخنور نہ آئے گا
اقبالؔ سا ادب میں پیمبر نہ آئے گا
حسن سلوک سے مرے قائل ہوئے ہیں دوست
الزام بے وفائی مرے سر نہ آئے گا
اپنے لہو سے پیاس بجھانی ہے تا حیات
اب راستے میں کوئی سمندر نہ آئے گا
بے لطف سا رہے گا ہر اک کیف زندگی
جشن طرب میں گر مرا دلبر نہ آئے گا
میری نصیحتیں ہوئی یاروں پہ بے اثر
ان جنگلوں میں پیڑ ثمر ور نہ آئے گا
انوارؔ آئنوں کا اگرچہ دیا ہے ساتھ
مت سوچ تیری راہ میں پتھر نہ آئے گا