کم بصیرت عذاب کہتے ہیں
کم بصیرت عذاب کہتے ہیں
زیست کو ہم ثواب کہتے ہیں
ہم نے آباد کر دئے صحرا
لوگ خانہ خراب کہتے ہیں
بے رخی نے ہمیں کیا گھائل
وہ وفا کا جواب کہتے ہیں
غم جو ننھا سا اک دیا ٹھہرا
سب اسے آفتاب کہتے ہیں
پیار ملتا ہے پیار کے بدلے
ہم دوانے کا خواب کہتے ہیں
دکھ کی لہروں کو دیکھ کر ہم تو
سکھ کا بہتا چناب کہتے ہیں
حسن بے شک ہے بے وفا انوارؔ
ہم وفا کی کتاب کہتے ہیں