ترے اعجاز سے

ترے اعجاز سے قائم مری دنیا کی رونق ہے
تری دل بستگی سے شورشیں ہیں بزم ہستی میں
ترے دم سے جہاں میں سرفرازی مجھ کو حاصل ہے
میں تیرے گیت گاتا ہوں جہان کیف و مستی میں
جنوں انگیز موسم کی قیامت خیز راتوں میں
تبسم زا ستاروں کی قطاریں جب بکھرتی ہیں
ردائے نیلگوں پر چاندنی جب کھیت کرتی ہے
ترے آنچل کی لہروں پر ہوائیں رقص کرتی ہیں
فضا میں آسمانی نور کی اک لوٹ مچتی ہے
کنار آب جو سے جب خراماں تو گزرتی ہے
کبھی جب تو مجھے موہوم لفظوں میں بلاتی ہے
کبھی جب تو مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیتی ہے
جب اپنی دھڑکنیں تو میرے دل میں ڈھال دیتی ہے
بہانے سے مری گردن میں بانہیں ڈال دیتی ہے
بہاریں وجد میں آتی ہیں فطرت رقص کرتی ہے
بہاروں میں مرے پہلو سے جب تو دور ہوتی ہے
مجھے آنسو رلاتی ہے ضیا مدھم ستاروں کی
تفکر چھین لیتا ہے امنگیں نوجوانی کی
رلاتی ہے دل مضطر کو ویرانی بہاروں کی


ترا حسن جنوں پرور تری الفت ترے نغمے
ہماری زندگی میں کیا ہمیشہ زرفشاں ہوں گے
یہ لمحے گردش ایام میں کھو جائیں گے اک دن
یہ لمحے قیمتی لمحے یہ کیسے جاوداں ہوں گے