ترے بغیر کبھی خوشبوؤں سے میں نہ ملا

ترے بغیر کبھی خوشبوؤں سے میں نہ ملا
چمن کے پاس سے گزرا گلوں سے میں نہ ملا


کسی مقام پہ فرزانگی نہ راس آئی
کسی نشست میں دانشوروں سے میں نہ ملا


گمان تھا کہ زمیں پر وہ چاند اترے گا
فلک پہ چلتے ہوئے قمقموں سے میں نہ ملا


میں اپنی ذات کے اندھے کنویں کا قیدی ہوں
ستارے دور تھے اور جگنوؤں سے میں نہ ملا


نظامؔ خود کی پرستش میں ایسا نشہ تھا
بتوں کے بیچ رہا بت گروں سے میں نہ ملا