اس شہر بے آواز میں وہ رات بھی گزری

اس شہر بے آواز میں وہ رات بھی گزری
جب میں نے کہا اور خودی میں نے سنا بھی


شاخوں پہ کوئی پھول کیا پتا بھی نہیں ہے
موسم کے بدلتے ہی بدلتی ہے ہوا بھی


اب اس کی خنک چھاؤں ہے جلتا ہوا صحرا
کس موڑ پہ سورج ہوئی دیوار انا بھی


پیڑوں کا لہو ان کی جڑیں چوس رہی ہیں
سنتا ہوں کہ اس دشت سے گزری تھی گھٹا بھی


اے گونجتی آواز کے خاموش پجاری
میں نے تو پکارا تھا مگر تو نے سنا بھی