ترے بعد اس جہاں میں کوئی دوسرا نہیں تھا
ترے بعد اس جہاں میں کوئی دوسرا نہیں تھا
ارے بے مثال تجھ سا کوئی بے وفا نہیں تھا
مرا ڈوبتا سفینہ کہوں کیسے پار اترا
مرے ساتھ اک خدا تھا کوئی نا خدا نہیں تھا
ترے عشق کے تلاطم نے ڈبو دیا ہے ورنہ
تو اے موج ریگ میں بھی کوئی بلبلا نہیں تھا
تو ٹھٹھرتی سردیوں میں کبھی آگ لینے آتی
میں جگر جلائے رکھتا کوئی دل جلا نہیں تھا
وہ مثال خواب منظر نہ لگے پلک پلک سے
کوئی خواب پھر نہ جاگے مجھے یہ پتا نہیں تھا
ترے اس مریض دل تک تو کبھی پہنچ نہ پائی
تو یہ بات سو چھپائے میں کہیں چھپا نہیں تھا
میں تمام ہوش کھو کر ترے در پہ جاں سے جاتا
ترے گھر کے راستوں میں کہیں مے کدہ نہیں تھا