مرے دل گلستاں کو کس لئے آباد کرنا تھا
مرے دل گلستاں کو کس لئے آباد کرنا تھا
اگر اس کو مرے حق سے مجھے آزاد کرنا تھا
مری سانسیں مرے گھٹ گھٹ کے مر جانے پہ چلتی ہیں
اسے شاید مجھے منت کش فریاد کرنا تھا
مجھے اک اجنبی نے ڈوبنے سے کیوں بچایا تھا
میں اب سمجھا اسے خود ہی مجھے برباد کرنا تھا
وہ محبوبہ تو اک شعلہ فشاں ہے پھول قالب میں
خدا کو اصل میں ہم پر ستم ایجاد کرنا تھا
شب ہجراں نے کیسی الجھنوں میں مجھ کو الجھایا
کہ جس کو بھول جانا تھا اسی کو یاد کرنا تھا