ترے آنے کے ہیں جو آسرے سونے نہیں دیتے
ترے آنے کے ہیں جو آسرے سونے نہیں دیتے
ہمیں خوش فہمیوں کے سلسلے سونے نہیں دیتے
محبت سے ہمیں تو نے پلٹ کر کیوں نہیں دیکھا
تری بدلی نظر کے زاویے سونے نہیں دیتے
وہ رہتا بے وفا لیکن نظر کے سامنے رہتا
نظر سے دور ہے تو فاصلے سونے نہیں دیتے
نہ جانے خوف کی پرچھائیاں کیسی مسلط ہیں
کہ اندیشوں کے ہم کو اژدہے سونے نہیں دیتے
سرائے میں ٹھہر کر بھی ہمیں تو جاگنا ہوگا
روانہ ہونے والے قافلے سونے نہیں دیتے
ہر آہٹ پہ گماں ہوتا ہے تیرے لوٹ آنے کا
نہیں ہے آس لیکن حوصلے سونے نہیں دیتے
قمرؔ میں رات بھر جاگوں تو ہے اس میں تعجب کیا
چمکنے کے تقاضے ہی مجھے سونے نہیں دیتے