خزاں کی چاہ میں کھلتے چمن کو چھوڑ دیا

خزاں کی چاہ میں کھلتے چمن کو چھوڑ دیا
تلاش رزق میں نکلنے وطن کو چھوڑ دیا


چلے تھے گھر سے اثاثے میں ہجرتیں لے کر
تمام عمر کی دل میں چبھن کو چھوڑ دیا


لگا کچھ ایسا جو بچھڑے ہم اپنے پیاروں سے
کہ جیسے روح نے اپنے بدن کو چھوڑ دیا


انہی کے دم سے سنورتے تھے سب ہنر میرے
جو وہ نہیں ہیں تو ہر ایک فن کو چھوڑ دیا


وہ جس کے وصل میں نغمے لکھے کبھی ہم نے
اسی کے ہجر میں ہم نے سخن کو چھوڑ دیا


اب اس کی یاد میں راتوں کا چین کھوتے ہیں
قمرؔ یہ کس سے کہیں کیوں وطن کو چھوڑ دیا