تیری گرفت میں آئے نہ خود کے بس میں رہے
تیری گرفت میں آئے نہ خود کے بس میں رہے
ہم ابر بن کے ہواؤں کی دسترس میں رہے
وہ کون لوگ تھے صحرا میں جن کو پھول ملے
چمن میں رہ کے بھی ہم لوگ خار و خس میں رہے
ہماری سادہ مزاجی ہی ہم کو لے ڈوبی
ہم آسمان تھے لیکن زمیں کے بس میں رہے
وہ قافلے جو کہیں دشت شب میں دفن ہوئے
سحر ہوئی بھی تو آوازۂ جرس میں رہے
بجھے تو کیسے بجھے پیاس جسم و جاں کی نویدؔ
کہ چند گھونٹ ہی پیمانۂ ہوس میں رہے