آنکھوں کے کنول لب کے چمن زار بہت تھے

آنکھوں کے کنول لب کے چمن زار بہت تھے
دیوانے مگر سیر سے بیزار بہت تھے


ہم لوگ کڑی دھوپ کے شیدائی تھے ورنہ
یوں سر کو چھپانے در و دیوار بہت تھے


ہر شخص کے چہرے پہ کئی چہرے تھے چسپاں
تجھ جیسے ترے شہر میں عیار بہت تھے


ٹوٹا ہوا پل ریت کی دیوار ہوا تیز
لگتا ہے کہ بستی میں گنہ گار بہت تھے


الفاظ ادا کرتی رہیں بولتی آنکھیں
چپ رہ کے بھی وہ مائل گفتار بہت تھے


آنکھوں کے دریچوں میں حیا جاگ رہی تھی
سوئے تھے کچھ ایسے کہ وہ بیدار بہت تھے


وہ شخص تو ہر گام پہ دیتا رہا دھوکے
تم پھر بھی نویدؔ اس کے پرستار بہت تھے