خمار شب کا سحر دم رہا ہے آنکھوں میں
خمار شب کا سحر دم رہا ہے آنکھوں میں
تمہاری زلف کا ہر خم رہا ہے آنکھوں میں
وہ دن بھی آئے گا آنکھوں سے زخم ٹپکیں گے
ابھی تو صرف لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
کوئی بھی رت ہو مہکتا ہے صرف ساون ہی
یہ کس کا دیدۂ پر نم رہا ہے آنکھوں میں
سلگتے شہر اجڑتے مکاں جھلستے بدن
کثافتوں کا دھواں جم رہا ہے آنکھوں میں
نویدؔ خواب اگاؤ نہ ان جزیروں میں
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا ہے آنکھوں میں